بہت سلیقے سے چیخ و پکار کرتے رہے
ہم اَپنے دَرد کے مرکز پہ وار کرتے رہے
زِیادہ عمر تو گاڑی گھسیٹنے میں کٹی
جہاں پہ ہو سکا ، قسطوں میں پیار کرتے رہے
سوادِ عقل میں مجنوں کی آبرو کے لیے
ہم ایک ہاتھ سے دامن کو تار کرتے رہے
کہیں کہیں پہ ہماری پسند پوچھی گئی
زِیادہ کام تو بے اِختیار کرتے رہے
تھی نیند مفت مگر یہ بھی خود کو دے نہ سکے
غذا کے نام پہ بس زَہر مار کرتے رہے
ٹرین چھُوٹی تو کتنے ہی عشق چھُوٹ گئے
تمام عمر نشستیں شمار کرتے رہے
اُداس رُت میں جو یادوں کا اُجڑا گھر کھولا
یقینی وعدے بہت سوگوار کرتے رہے
کبھی کبھی تو فقط چائے کی پیالی سے
خَزاں کی بوڑھی تھکن کو بہار کرتے رہے
بوقتِ زَخم شماری یہ راز فاش ہُوا
ہم اَپنی جیب سے کچھ بڑھ کے پیار کرتے رہے
ہزاروں خواہشوں کو دِل میں زِندہ گاڑ دِیا
پُلِ صراط کئی روز پار کرتے رہے
بہت سے لوگوں پہ قیسؔ اَچھا وَقت آیا بھی
ہمارے جیسے تو بس اِنتظار کرتے رہے
Twitter
Facebook